اک جسم بحر و بر سے بھی آگے نِکل گیا
یعنی حدِ سفر سے بھی آگے نِکل گیا
شہبازِ عقل ، سدرہ تلک ہی نہیں رہا
توفیقِ بال و پَر سے بھی آگے نِکل گیا
آوارگی یہ سر پہ میرے یوں سوار ہے
اکثر تو تیرے در سے بھی آگے نِکل گیا
کر کے وضو میں ہاتھ لگاؤں شراب کو
تفریقِ خیر و شر سے بھی آگے نِکل گیا
رونے سے میرے یوں تو کئی بار ہے ہوا
بادل بغیر برسے بھی آگے نِکل گیا
آتا نہیں غُبارِ روشؔ بھی نظر کہیں
شاید وہ رہگُزر سے بھی آگے نِکل گیا
علی روشؔ
آوارگی یہ سر پہ میرے یوں سوار ہے اکثر تو تیرے در سے بھی آگے نِکل گیا
Reviewed by Aamir Rana
on
اپریل 07, 2020
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: