دل فقط ہجر سے آباد نہیں رکھ سکتا
جانِ جاں اب میں تجھے یاد نہیں رکھ سکتا
جانِ جاں اب میں تجھے یاد نہیں رکھ سکتا
تو چاہے تو مجھے چھوڑ کے جا سکتا ہے
اس سے بڑھ کر میں تجھے شاد نہیں رکھ سکتا
اس سے بڑھ کر میں تجھے شاد نہیں رکھ سکتا
تو اگر ہے تو کسی لمحہ موجود میں آ
وہم پر میں تیری بنیاد نہیں رکھ سکتا
وہم پر میں تیری بنیاد نہیں رکھ سکتا
پہلے خود اس کی اسیری کا طلب گار تھا میں
اور اب وہ مجھے آزاد نہیں رکھ سکتا
اور اب وہ مجھے آزاد نہیں رکھ سکتا
میرا وعدہ ہے تیرا ساتھ نبھاؤں گا ضرور
ہاں مگر میں کوئی میعاد نہیں رکھ سکتا
ہاں مگر میں کوئی میعاد نہیں رکھ سکتا
تو چاہے تو مجھے چھوڑ کے جا سکتا ہے اس سے بڑھ کر میں تجھے شاد نہیں رکھ سکتا
Reviewed by Aamir Rana
on
جون 11, 2019
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: