میں اور خود سے تجھ کو چھپاؤں گا ، یعنی میں
لے دیکھ لے میاں مرے اندر بھی کچھ نہیں
لے دیکھ لے میاں مرے اندر بھی کچھ نہیں
یہ شہرِ دارِ محتسب و مولوی ہی کیا
پیرِ مغان و رند و قلندر بھی کچھ نہیں
پیرِ مغان و رند و قلندر بھی کچھ نہیں
شیخِ حرم کو لقمے کی پروا ہے کیوں نہیں
مسجد بھی اس کی کچھ نہیں منبر بھی کچھ نہیں
مسجد بھی اس کی کچھ نہیں منبر بھی کچھ نہیں
مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دیار میں
شاید وہ جبر ہے کہ مقدر بھی کچھ نہیں
شاید وہ جبر ہے کہ مقدر بھی کچھ نہیں
جانی میں تیرے ناف پیالے پہ ہوں فدا
یہ اور بات ہے ترا پیکر بھی کچھ نہیں
یہ اور بات ہے ترا پیکر بھی کچھ نہیں
بس اک غبارِ طور گماں کا بھی تہ با تہ
یعنی نظر بھی کچھ نہیں ، منظر بھی کچھ نہیں
یعنی نظر بھی کچھ نہیں ، منظر بھی کچھ نہیں
ہے اب تو اک حالِ سکونِ ہمیشگی
پرواز کا تو ذکر ہی کیا ، پر بھی کچھ نہیں
پرواز کا تو ذکر ہی کیا ، پر بھی کچھ نہیں
پہلو میں ہے جو میرے کہیں اور ہے وہ شخص
یعنی وفائے عہد کا بستر بھی کچھ نہیں
یعنی وفائے عہد کا بستر بھی کچھ نہیں
گزرے گی جون شہر میں رشتوں کے کس طرح
دل میں بھی کچھ نہیں ہے، زباں پر بھی کچھ نہیں
دل میں بھی کچھ نہیں ہے، زباں پر بھی کچھ نہیں
جانی میں تیرے ناف پیالے پہ ہوں فدا یہ اور بات ہے ترا پیکر بھی کچھ نہیں
Reviewed by Aamir Rana
on
جون 11, 2019
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: