یہ الگ بات، ہر اک دکھ نے لبھایا ہے مجھے
اے مری کاہشِ جاں! کس نے ستایا ہے مجھے
اے مری کاہشِ جاں! کس نے ستایا ہے مجھے
اتنی نفرت تو مرے دل میں نہ جاگی تھی کبھی
سوچ، کس شخص نے یہ زہر پلایا ہے مجھے
سوچ، کس شخص نے یہ زہر پلایا ہے مجھے
پھر کوئی تازہ کسک دل کی تہوں میں اُتری
پھر کسی خواب نے آئینہ دکھایا ہے مجھے
پھر کسی خواب نے آئینہ دکھایا ہے مجھے
کس نے لوٹا ہے مرے ذہن کی سوچوں کا سہاگ
اے مرے قلب تپاں! کس نے چرایا ہے مجھے
اے مرے قلب تپاں! کس نے چرایا ہے مجھے
تیری چیخیں بھی کسی روز سنے گی دُنیا
مصلحت کیش! اگر تو نے رُلایا ہے مجھے
مصلحت کیش! اگر تو نے رُلایا ہے مجھے
میں یہی سوچ کے چپ ہوں کہ کسی طور سہی
گنبدِ درد کے کنگرہ پہ سجایا ہے مجھے
گنبدِ درد کے کنگرہ پہ سجایا ہے مجھے
ابر تزویر ہوا جب بھی کبھی سایہ فگن
حدتِ شعلہ ادراک نے پایا ہے مجھے
حدتِ شعلہ ادراک نے پایا ہے مجھے
میں تو سر تا بہ قدم تیرا فقط تیرا تھا
ظرفِ کم حوصلہ! خود تو نے گنوایا ہے مجھے
ظرفِ کم حوصلہ! خود تو نے گنوایا ہے مجھے
اُس کے گھر میں بھی کسی دُکھ کی سیاہی بھر دے
شب کی دہلیز کا پتھر تو بنایا ہے مجھے
شب کی دہلیز کا پتھر تو بنایا ہے مجھے
تو مرا کیسا خدا ہے! مری لغزش تو بتا
زندگی بھر جو بلندی سے گرایا ہے مجھے
زندگی بھر جو بلندی سے گرایا ہے مجھے
کس کے اخلاص سے کوتاہی ہوئی ہے احمد
کس نے اس ضبط کا انگارہ بنایا ہے مجھے
کس نے اس ضبط کا انگارہ بنایا ہے مجھے
تیری چیخیں بھی کسی روز سنے گی دُنیا مصلحت کیش! اگر تو نے رُلایا ہے مجھے
Reviewed by Aamir Rana
on
جون 11, 2019
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: