نقش ِ بر آب کناروں کےمیاں ڈوبتا ہے
آنکھ سیلاب اٹھائے تو جہاں ڈوبتا ہے
آنکھ سیلاب اٹھائے تو جہاں ڈوبتا ہے
مردہ اجسام تہہِ آب نہیں رہ سکتے
ابھی زندہ ہے مرا دل کہ سماں ڈوبتا ہے
ابھی زندہ ہے مرا دل کہ سماں ڈوبتا ہے
حکم آیا ہے کہ چڑیاں نہ چہکنے پائیں
یہ چہکتی ہیں تو پھر شورِ سگاں ڈوبتا ہے
یہ چہکتی ہیں تو پھر شورِ سگاں ڈوبتا ہے
سیلِ ادراک ہے یہ اور یہاں موجوں میں
وہ تموج ہے کہ مینارِ گماں ڈوبتا ہے
وہ تموج ہے کہ مینارِ گماں ڈوبتا ہے
ڈوب جاتا ہوں کسی موج کی طغیانی میں
ایسے جیسے کسی دریا میں جواں ڈوبتا یے
ایسے جیسے کسی دریا میں جواں ڈوبتا یے
تیرنے والے بچاتے ہی نہیں ڈوبتے کو
فقط آواز لگاتے ہیں فلاں ڈوبتا ہے
فقط آواز لگاتے ہیں فلاں ڈوبتا ہے
زن زمیں زر سے بناتا ہے وہ برمودہ تکون
جو بھی جاتا ہے مری جان وہاں ڈوبتا ہے
جو بھی جاتا ہے مری جان وہاں ڈوبتا ہے
ڈوب جاتا ہوں کسی موج کی طغیانی میں ایسے جیسے کسی دریا میں جواں ڈوبتا یے
Reviewed by Aamir Rana
on
اگست 02, 2019
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: