راتوں میں لیے چشمِ ہنر گھوم رہا ہے
لگتا ہے مدینے میں عمر گھوم رہا ہے
کیا تیرے جوابات سے بہلاؤں میں دل کو
اپنے ہی سوالات پہ سر گھوم رہا ہے
اپنے ہی سوالات پہ سر گھوم رہا ہے
وہ حال کہ حالات کا بھی علم نہیں کچھ
سَر درد زیادہ ہے کہ گھر گھوم رہا ہے
سَر درد زیادہ ہے کہ گھر گھوم رہا ہے
یا لوگ سنبھل پائے نہیں بھوک سے اپنی
یا طرّہ ء پندار سے در گھوم رہا ہے
یا طرّہ ء پندار سے در گھوم رہا ہے
جس حال میں تُو وقتِ ازل چھوڑ گیا تھا
اُس وقت سے اک شخص اُدھر گھوم رہا ہے
اُس وقت سے اک شخص اُدھر گھوم رہا ہے
تقلید کی چرخی سے لپٹ کر یہ قبیلہ
اک سیدھ میں چلتا ہے مگر گھوم رہا ہے
اک سیدھ میں چلتا ہے مگر گھوم رہا ہے
جو عشق میسر ہی نہیں دل کو مگر ذہن
اُس عشق ہی کے زیرِ اثر گھوم رہا ہے
اُس عشق ہی کے زیرِ اثر گھوم رہا ہے
لگتا ہے کہ مانوس ہیں فاتح سے یہاں لوگ
اس شان سے بازار میں ڈر گھوم رہا ہے
اس شان سے بازار میں ڈر گھوم رہا ہے
مدثر عباس
لگتا ہے مدینے میں عمر گھوم رہا ہے
Reviewed by Aamir Rana
on
اگست 02, 2019
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: