جو اِسم و جسم کو باہم نِبھانے والا نہیں
میں ایسے عشق پہ ایمان لانے والا نہیں
میں ایسے عشق پہ ایمان لانے والا نہیں
میں پاؤں دھو کے پئیوں یار بن کے جو آئے
منافقوں کو تو میں منہ لگا نے والا نہیں
منافقوں کو تو میں منہ لگا نے والا نہیں
نزول کر مرے سینے پہ اے جمال ِ شدید
تری قسم میں ترا خوف کھانے والا نہیں
تری قسم میں ترا خوف کھانے والا نہیں
بس اِتنا جان لے اے پُر کشش کے دل تجھ سے
بہل تو سکتا ہے پر تجھ پہ آنے والا نہیں
بہل تو سکتا ہے پر تجھ پہ آنے والا نہیں
یہ میری آنکھ میں بھڑکے تو پھر ہٹاؤں گا
ابھی میں آگ سے نظریں ہٹانے والا نہیں
ابھی میں آگ سے نظریں ہٹانے والا نہیں
تجھے کسی نے غلط کہہ دیا میرے بارے
نہیں میاں میں دِلوں کو دُکھانے والا نہیں
نہیں میاں میں دِلوں کو دُکھانے والا نہیں
ہے ایک رمز جو تجھ پر عیاں نہیں کرنی
ہے ایک شعر جو تجھ کو سنانے والا نہیں
ہے ایک شعر جو تجھ کو سنانے والا نہیں
فقیر قول نبھاتا ہے پریم کرتا ہے
فقیر کوئی کرامت دِکھانے والا نہیں
فقیر کوئی کرامت دِکھانے والا نہیں
سن اے قبیلہء ِ کوفی دِلاں مُکرر سن
علی کبھی بھی حزیمت اُٹھانے والا نہیں
علی کبھی بھی حزیمت اُٹھانے والا نہیں
علی زریون
فقیر قول نبھاتا ہے پریم کرتا ہے فقیر کوئی کرامت دِکھانے والا نہیں
Reviewed by Aamir Rana
on
جولائی 13, 2019
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: