سرّ ِ وحشت ہے، قدم کھینچ، اچٹ کر مت دیکھ
منظرِ دشتِ غزل ہے اِسے کٹ کر مت دیکھ
منظرِ دشتِ غزل ہے اِسے کٹ کر مت دیکھ
روشنی دھند کی چادر میں لپٹ سکتی ہے
میں نے جگنو سےکہا تھا کہ پلٹ کر مت دیکھ
میں نے جگنو سےکہا تھا کہ پلٹ کر مت دیکھ
تاب داں کھول کے رستے کی طرف دیکھتا رہ
گھر کی دیوار پہ تصویر سمٹ کر مت دیکھ
گھر کی دیوار پہ تصویر سمٹ کر مت دیکھ
خانۂ دہر سے یوں سیرِ طلب کو نہ اٹھا
کوزہ گر کاسہء وحشت کو الٹ کر مت دیکھ
کوزہ گر کاسہء وحشت کو الٹ کر مت دیکھ
یہ جو محرومیء گلزار میں سر پیٹتے ہیں
اپنے پہلو سے اٹھا ان سے لپٹ کر مت دیکھ
اپنے پہلو سے اٹھا ان سے لپٹ کر مت دیکھ
روشنی دھند کی چادر میں لپٹ سکتی ہے میں نے جگنو سےکہا تھا کہ پلٹ کر مت دیکھp
Reviewed by Aamir Rana
on
جون 22, 2018
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: