پندار کی ویران سرا میں نہیں رہتے
ہم خاک پہ رہتے ہیں خلامیں نہیں رہتے
ہم خاک پہ رہتے ہیں خلامیں نہیں رہتے
قامت بھی ہماری ہے ، لبادہ بھی ہمارا
مانگی ہوئی دستار و قبا میں نہیں رہتے
مانگی ہوئی دستار و قبا میں نہیں رہتے
ہم کشمکشِ دہر کے پالے ہوئے انسان
ہم گریہ کناں کرب و بلا میں نہیں رہتے
ہم گریہ کناں کرب و بلا میں نہیں رہتے
خاشاکِ زمانہ ہیں ، نہیں خوف ہمیں کوئی
آندھی سے ڈریں وہ جو ہوا میں نہیں رہتے
آندھی سے ڈریں وہ جو ہوا میں نہیں رہتے
ہم چھوڑ بھی دیتے ہیں کُھلا توسنِ دل کو
تھامے ہوئے ہر وقت لگامیں نہیں رہتے
تھامے ہوئے ہر وقت لگامیں نہیں رہتے
روحوں میں اتر جاتے ہیں تیزاب کی صورت
لفظوں میں گھلے زہر صدا میں نہیں رہتے
لفظوں میں گھلے زہر صدا میں نہیں رہتے
احساس کے موسم کبھی ہوجائیں جو بے رنگ
خوشبو کے ہنر دستِ صبا میں نہیں رہتے
خوشبو کے ہنر دستِ صبا میں نہیں رہتے
اونچا نہ اُڑو اپنی ضرورت سے زیادہ
تھک جائیں پرندے تو فضا میں نہیں رہتے
تھک جائیں پرندے تو فضا میں نہیں رہتے
دستار بنے جاتے ہیں اب شہرِ طلب میں
کشکول کہ اب دستِ گدا میں نہیں رہتے
کشکول کہ اب دستِ گدا میں نہیں رہتے
اس خانہ بدوشی میں خدا لائے نہ وہ دن
جب بچھڑے ہوئے یار دعا میں نہیں رہتے
جب بچھڑے ہوئے یار دعا میں نہیں رہتے
قامت بھی ہماری ہے ، لبادہ بھی ہمارا مانگی ہوئی دستار و قبا میں نہیں رہتے
Reviewed by Aamir Rana
on
مئی 14, 2018
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: