واقف نہیں جو لوگ سفر کے اصول سے
سائے کی بھیک مانگ رہے ہیں ببول سے
کیا جانے تو کہ کیسے گزرتی ہے زندگی
کیف ملال پوچھ کسی دل ملول سے
میں آج تک سفر میں ہوں اس اعتماد پر
ابھریں گی منزلیں مرے قدموں کی دھول سے
اب ڈس رہا ہے ان کے گزرنے کا غم مجھے
جو لمحے میں گزار چکا ہوں فضول سے
ساقی امروہی
سائے کی بھیک مانگ رہے ہیں ببول سے
کیا جانے تو کہ کیسے گزرتی ہے زندگی
کیف ملال پوچھ کسی دل ملول سے
میں آج تک سفر میں ہوں اس اعتماد پر
ابھریں گی منزلیں مرے قدموں کی دھول سے
اب ڈس رہا ہے ان کے گزرنے کا غم مجھے
جو لمحے میں گزار چکا ہوں فضول سے
ساقی امروہی
کیا جانے تو کہ کیسے گزرتی ہے زندگی کیف ملال پوچھ کسی دل ملول سے
Reviewed by Aamir Rana
on
اپریل 03, 2020
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: