نہیں ہے وَجہہ ضروری کہ جب ہو ' تب مر جائیں
اداس لوگ ہیں ' ممکن ہے ۔۔۔۔۔ بے سبب مر جائیں
اداس لوگ ہیں ' ممکن ہے ۔۔۔۔۔ بے سبب مر جائیں
ہماری نیند کا دورانیـہ ہے رُوز افــزُوں
کوئی بعـیـد نہیں ہے کہ ایک شب مر جائیں
کوئی بعـیـد نہیں ہے کہ ایک شب مر جائیں
یہ مرنے والوں کو رونے کا سـلسـلہ نہ رہے
کچھ ایسا ہو کہ بَہ یک وقت ۔۔۔ سب کے سب مر جائیں
کچھ ایسا ہو کہ بَہ یک وقت ۔۔۔ سب کے سب مر جائیں
یہ اہل ہجـر ۔۔۔۔۔ شـفا یاب تو نہیں ہوں گے
کوئی دَوا ہو کہ جس سے یہ جاں بَہ لب ' مر جائیں
کوئی دَوا ہو کہ جس سے یہ جاں بَہ لب ' مر جائیں
یہ موتیـا تو نہیں ہے' سـفیـد لاشـیں ہیں
ابُھر کے سطح پَہ آتے ہیں خواب ' جب مر جائیں
ابُھر کے سطح پَہ آتے ہیں خواب ' جب مر جائیں
ہماری نبض ۔۔۔۔ سمجھ لے' ہمارے ہاتھ میں ہے
تو صِرف حُکم دے ' بَس دن بتا کہ کب مر جائیں
تو صِرف حُکم دے ' بَس دن بتا کہ کب مر جائیں
نہ کوئی روکنے والا ' نہ دریا دُور ۔۔ مگر
سنا ہے' پیاس سے مرنا ہے مسـتحَب' مر جائیں؟
سنا ہے' پیاس سے مرنا ہے مسـتحَب' مر جائیں؟
یقین کر کہ کئی بار ۔۔۔۔ ایک دن میں ' عمیــرؔ !
ہم اپنے آپ سے کہتے ہیں : یار! اب مر جائیں
ہم اپنے آپ سے کہتے ہیں : یار! اب مر جائیں
عُمیــرؔ نجــمـی
ہم اپنے آپ سے کہتے ہیں : یار! اب مر جائیں
Reviewed by Aamir Rana
on
دسمبر 15, 2019
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: