Seo Services

اُن کا فقیر دولتِ عالم سے بے نیاز کاسے میں کائنات کا ٹکڑا پڑا ہوا



گھٹی میں ہے وِلا کا وہ نشہ پڑا ہوا
ٹھوکر پہ مارتا ہوں خزانہ پڑا ہوا
صدیوں سے چاکرِ درِ حیدرؑ ہوں دیکھ لو
گردن میں میری طوق ہے اُن کا پڑا ہوا
اور یہ بھی دیکھ لو اسی نسبت کے فیض سے
پیروں پہ ہے مرے سگِ دُنیا پڑا ہوا
سورج کے بعد ماہِ منوّر ہوا طلوُع
تھا بزمِ چار سوُ میں اندھیرا پڑا ہوا
باطل تمام حق سے الگ ہو کے جا گرا
کیا دستِ ذوالفقار تھا سچا پڑا ہوا
اُن کا فقیر دولتِ عالم سے بے نیاز
کاسے میں کائنات کا ٹکڑا پڑا ہوا
اپنے لہو میں مست ہیں تشنہ لبانِ عشق
صحرا میں چھوڑ آئے ہیں دریا پڑا ہوا
بخشش سو بے حساب، نوازش سو بے حساب
ہے مدح گو کو مدح کا چسکا پڑا ہوا

اُن کا فقیر دولتِ عالم سے بے نیاز کاسے میں کائنات کا ٹکڑا پڑا ہوا اُن کا فقیر دولتِ عالم سے بے نیاز کاسے میں کائنات کا ٹکڑا پڑا ہوا Reviewed by Aamir Rana on مئی 26, 2018 Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

ads 728x90 B
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.