خشک ہوتا ہی نہیں دیدہ تر پانی کا
یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا
یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا
دیکھنے میں وہی تصویر ہے سیرابی کی
اور دل پر ہے کوئی نقش دگر پانی کا
اور دل پر ہے کوئی نقش دگر پانی کا
کوئی مشکیزہ سر نیزہ علم ہوتا ہے
دیکھئے دشت میں لگتا ہے شجر پانی کا
دیکھئے دشت میں لگتا ہے شجر پانی کا
آج تک گریہ کناں ہے اسی حسرت میں فرات
کاش ہوتا در شبیر پہ سر پانی کا
کاش ہوتا در شبیر پہ سر پانی کا
تیری کھیتی لب دریا ہے تو مغروز نہ ہو
اعتبار اتنا مری جان نہ کر پانی کا
اعتبار اتنا مری جان نہ کر پانی کا
کوئی مشکیزہ سر نیزہ علم ہوتا ہے دیکھئے دشت میں لگتا ہے شجر پانی کا
Reviewed by Aamir Rana
on
مئی 26, 2018
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: