قافلے پھر نہیں جاتے ہیں ورائے دریا
راس آجائے اگر آب و ہوائے دریا
راس آجائے اگر آب و ہوائے دریا
صبر نے موجوں کو زنجیر پنہا دی ورنہ
کیسے ممکن تھا کہ خدمت میں نہ آئے دریا
کیسے ممکن تھا کہ خدمت میں نہ آئے دریا
لب معصوم پہ فریاد کہ ہائے پانی
دشت افسوس کو افسوس کہ ہائے دریا
دشت افسوس کو افسوس کہ ہائے دریا
ایک چلو کا بھی عباس نے احساں نہ لیا
پھینک دی اس کے ہی چہرے پہ عطائے دریا
پھینک دی اس کے ہی چہرے پہ عطائے دریا
لب جو تشنہ دہاں آل نبی قتل ہوئے
داغ ہے سینہ گیتی پہ بجائے دریا
داغ ہے سینہ گیتی پہ بجائے دریا
صبر نے موجوں کو زنجیر پنہا دی ورنہ کیسے ممکن تھا کہ خدمت میں نہ آئے دریا
Reviewed by Aamir Rana
on
مئی 26, 2018
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: