جوان بیوہ کی آہوں کے استعارے تھے
ہواۓ شام کے جھونکے نہیں تھے آرے تھے
دلاسہ دیتے ہوے لوگ کیا سمجھ پاتے
ہم ایک شخص نہیں کائنات ہارے تھے
مرے کریم کھلی آنکھ سے گزار کبھی
وہ قافلے جو مرے خواب سے گزارے تھے
یہ اور بات کہ پیاسے کی پیاس لے ڈوبی
فرات نے تو بڑے ہاتھ پاؤں مارے تھے
ہمارے پیار کی تفصیل پوچھنے والو
ہم ایک باہمی دریا کے دو کنارے تھے
پھر ایک دن میں منافق بنا تو یار بنے
وگرنہ جان کے دشمن تو ڈھیر سارے تھے
ہواۓ شام کے جھونکے نہیں تھے آرے تھے
دلاسہ دیتے ہوے لوگ کیا سمجھ پاتے
ہم ایک شخص نہیں کائنات ہارے تھے
مرے کریم کھلی آنکھ سے گزار کبھی
وہ قافلے جو مرے خواب سے گزارے تھے
یہ اور بات کہ پیاسے کی پیاس لے ڈوبی
فرات نے تو بڑے ہاتھ پاؤں مارے تھے
ہمارے پیار کی تفصیل پوچھنے والو
ہم ایک باہمی دریا کے دو کنارے تھے
پھر ایک دن میں منافق بنا تو یار بنے
وگرنہ جان کے دشمن تو ڈھیر سارے تھے
یہ اور بات کہ پیاسے کی پیاس لے ڈوبی فرات نے تو بڑے ہاتھ پاؤں مارے تھے
Reviewed by Aamir Rana
on
مئی 20, 2018
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: