Seo Services

حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا، جاتے ہوئے



تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے اِدھر آتے ہوئے
کچھ بھنور ڈوب گئے آب میں چکراتے ہوئے
ہم نے تو رات کو دانتوں سے پکڑ رکھا ہے
چھینا جھپٹی میں اُفق کھلتا گیا جاتے ہوئے
جھپ سے پانی میں اُتر جاتی ہے گلنار شفق
سُرخ ہو جاتے ہیں رُخسار بھی، شرماتے ہوئے
میں نہ ہوں گا تو خزاں کیسے کٹے گی تیری
شوخ پتے نے کہا شاخ سے مُرجھاتے ہوئے
حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح
ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا، جاتے ہوئے
سِی لئے ہونٹ وہ پاکیزہ نگاہیں سُن کر
میلی ہو جاتی ہے آواز بھی، دُہراتے ہوئے

حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا، جاتے ہوئے حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا، جاتے ہوئے Reviewed by Aamir Rana on جون 10, 2019 Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

ads 728x90 B
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.