جونہی گھبرا کے مری آنکھ سے آنسو نکلے
ماں کی تصویر سے بے ساختہ بازو نکلے
ماں کی تصویر سے بے ساختہ بازو نکلے
آپ کی ترش مزاجی بھی گوارا لیکن
بات جیسی ہو مگر امن کا پہلو نکلے
بات جیسی ہو مگر امن کا پہلو نکلے
ایک میں خاک تو دوجے میں اٹھا کر دولت
پھینکنے والے ،ترے ہاتھ ترازو نکلے
پھینکنے والے ،ترے ہاتھ ترازو نکلے
میرے سردار نے کچھ ایسے مدینہ چھوڑا
جیسے ٹہنی پہ کھلے پھول سے خوشبو نکلے
جیسے ٹہنی پہ کھلے پھول سے خوشبو نکلے
میں نے مقتل میں جو یاروں کو صدا دی راکب
سر کہیں سے تو کہیں ریت سے بازو نکلے
سر کہیں سے تو کہیں ریت سے بازو نکلے
ایک میں خاک تو دوجے میں اٹھا کر دولت پھینکنے والے ،ترے ہاتھ ترازو نکلے
Reviewed by Aamir Rana
on
مئی 26, 2018
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: